| سجاد کو ظالم نے یوں خون رلایا ہے |
| عباس کی بہنوں کو دربار بلایا ہے |
| ہے طوق ایسا گردن سجاد کی ہے چھلنی |
| دُروں سے جسم سارا بیمار کا ہے زخمی |
| مظلوم کو کانٹوں پر ہر گام چلایا ہے |
| آئی ہیں رسن بستہ تطھیر کی شھزادی |
| ہے ہاتھ رکھے منہ پر شبیر کی شھزادی |
| امت نے ستم کیسا یہ آل پہ ڈھایا ہے |
| دربار میں آمد ہے نیزے پہ سرِ شہ کی |
| ظالم نے جفاؤں کی پھر دیکھیئے حد کردی |
| سر سبطِ پیمبر کا نیزے سے گرایا ہے |
| نیزے پہ نہیں رکتا عباسِ چچا کا سر |
| آنکھیں ہیں بند کیونکہ بہنوں کا ہے کھلا سر |
| گردن میں فرس کے سر جری کا جو پایا ہے |
| دربار میں آئی ہیں ماں بہنیں رسن بستہ |
| چادر بھی نہیں سر پر کیسے کریں وہ پردہ |
| کوئی بھی نہیں اپنا ماحول پرایا ہے |
| پیاسوں پہ جفائیں ہیں منظر ہے قیامت کا |
| کچھ رحم نہیں کھاتے مظلوموں پہ یہ اعداء |
| پانی کی طرح سب کا جو خون بہایا ہے |
| معصوم سکینہ کو مانگا جو کنیزی میں |
| پھر شورِ فغاں اٹھا دربارِ یزیدی میں |
| رو رو کے سکینہ کو بی بی نے چھپایا ہے |
| لہجے میں علی کے جو زینب نے دیا خطبہ |
| دربارِ یزیدی کا پلٹا ہی دیا تختہ |
| برسات سے دروں کی فضہ نے بچایا ہے |
| ان رنج و الم کو اب صائب بھلا کیا لکھے |
| بازار میں بے پردہ ماں بہنوں کو جو دیکھے |
| سجاد کی آنکھوں میں ہر درد سمایا ہے |
معلومات