غزل اردو
اب تو تنہائی سے کچھ ایسا ہے یارانہ سا
ساتھ سایہ بھی ہو لگتا ہے وہ بیگانہ سا
میری باتوں پہ کوئی کان بھی اب دھرتا نہیں
چھوڑو کہتے ہیں یہ اک شخص ہے دیوانہ سا
مجھ کو تو لوگ نظر آتے رقیبان ہیں سب
خوف رہتا ہے ہمیشہ یہی انجانا سا
مجھ کو چلنے کی اکیلے ہی پڑی عادت ہے
یہ بھی انداز ہے اپنا تو جداگانہ سا
بڑھنے لگ جائے اگر تلخی تو سوری کہنا
یہی دستورِ تکلم ہے شریفانہ سا
خون اترا ہے تری آنکھوں میں اے جانِ جگر
ہر رویہ ہے ترا یار سفاکانہ سا
جانے کب اس سے ملاقات ہوئی ہے انور
اس کا چہرہ تو مجھے لگتا ہے کچھ جانا سا
انور نمانا

0
7