| یہی اک انترا ہے آج کل جو عام چلتا ہے |
| کسی کا کام ٹھہرا ہے کسی کا نام چلتا ہے |
| ہمارے شہر میں اک کہکشاں ہے سرخ لفظوں کی |
| اسی سے خوں طلب افسانہ صبح و شام چلتا ہے |
| کوئی سکہ نہیں کھوٹا سیاست کی تجوری میں |
| کوئی سکہ نہیں سکے کا لیکن دام چلتا ہے |
| ہماری ڈائری محفوظ کرلو کام آئے گی |
| یہاں زندہ کفن میں اور مردہ عام چلتا ہے |
| نئی وحشت کے سائے دن دہاڑے گھوم پھرتے ہیں |
| کوئی آسیب پروردہ بصد آرام چلتا ہے |
| سفیرِ آدمیت جا گزیں ہے کنجِ خلوت میں |
| فقط نفرت کے میخانوں میں دورِ جام چلتا ہے |
| تمہاری شاعری میں حسنِ جاناں ہو کہاں شیدؔا |
| بھلا اس دور میں بھی عاشقی کا کام چلتا ہے ! |
معلومات