| تھے کہاں کے، کہاں پر اُتارے گئے |
| کھینچ کر ہم زمِیں پر جو مارے گئے |
| جو اُتارے گئے تھے ہمارے لِیئے |
| سب کے سب چاند، سُورج، سِتارے گئے |
| ناؤ احساس کی ڈگمگا سی گئی |
| اور ہاتھوں سے ندیا کے دھارے گئے |
| عِشق لِپٹا ہی سارا خساروں میں ہے |
| فائدہ کیا ہُؤا گر خسارے گئے |
| اور کُچھ بھی تو ہم سے نہِیں بن پڑا |
| اپنے ارماں کے سر ہی اتارے گئے |
| جو عقِیدت کے اپنےدِلوں میں رہے |
| سِلسِلے وہ ہمارے تُمہارے گئے |
| عاشِقوں کے لِیئے ہم ہُوۓ سربکف |
| موت کے منہ میں جتنے بھی سارے گئے |
| یاد آئیں تو آنسُو چھلکنے لگیں |
| وہ زمانے کہ تُجھ بِن گزارے گئے |
| آگ کا ایک دریا ہے کرنا عُبُور |
| اور حسرتؔ یہ بازی جو ہارے، گئے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات