| بے وفا وہ نہیں بے وفا ہے مگر |
| ایسے بھیدوں میں کچھ مدعا ہے مگر |
| اپنا ہر زخم بھر تو گیا ہے مگر |
| میرے دل میں ابھی درد سا ہے مگر |
| اس نگر میں نہ کچھ لو چلی ہے ابھی |
| دل چراغوں سا جل کے بجھا ہے مگر |
| تم نے چاہا نہ مجھ کو نہ مانا کبھی |
| میں نے پھر بھی تمہیں سب دیا ہے مگر |
| کس طرح میں کروں اب گلہ درد کا |
| سامنے تو نہیں اب خدا ہے مگر |
| وقت کی دھوپ نے سب مٹا ہی دیا |
| ہاں ترے غم کا سایہ رہا ہے مگر |
| تیرے غم کو کبھی نہ کہا کچھ برا |
| تجھ سوا غم ہمیں ہر برا ہے مگر |
| دیکھو فیصلؔ بھی تو جی رہا ہے ابھی |
| پر جو پہلے تھا وہ مر چکا ہے مگر |
معلومات