بے وفا وہ نہیں بے وفا ہے مگر
ایسے بھیدوں میں کچھ مدعا ہے مگر
اپنا ہر زخم بھر تو گیا ہے مگر
میرے دل میں ابھی درد سا ہے مگر
اس نگر میں نہ کچھ لو چلی ہے ابھی
دل چراغوں سا جل کے بجھا ہے مگر
تم نے چاہا نہ مجھ کو نہ مانا کبھی
میں نے پھر بھی تمہیں سب دیا ہے مگر
کس طرح میں کروں اب گلہ درد کا
سامنے تو نہیں اب خدا ہے مگر
وقت کی دھوپ نے سب مٹا ہی دیا
ہاں ترے غم کا سایہ رہا ہے مگر
تیرے غم کو کبھی نہ کہا کچھ برا
تجھ سوا غم ہمیں ہر برا ہے مگر
دیکھو فیصلؔ بھی تو جی رہا ہے ابھی
پر جو پہلے تھا وہ مر چکا ہے مگر

0
47