| وہ کیا بچھڑ گئے کہ فراغت کی رات تھی |
| لفظوں میں کیسے لائیں کہ آفت کی رات تھی |
| اب تک بدن میں صورِ سرافیل جیسی گونج |
| تشہیرِ ہجر تھی کہ قیامت کی رات تھی |
| دیکھی نہ ہم نے آگ نہ کوئی دھواں اٹھا |
| اڑتی فقط تھی راکھ حرارت کی رات تھی |
| چہرے کے روزنوں سے نمی جھانکتی رہی |
| بجھتی صدا سکوتِ سماعت کی رات تھی |
| دیوار و در پہ سائے شکست و ملال کے |
| بکھرے پڑے تھے خواب ریاضت کی رات تھی |
| خوشے نکل رہے تھے عجب فصلِ درد تھا |
| کاٹیں غموں کی فصل زراعت کی رات تھی |
| شیدؔا یہ ایک آہ کی ہے بے خودی کی بات |
| وہ روز و ماہ و سال کہ ساعت کی رات تھی |
معلومات