ہر اک کو ڈال دوں دانہ نہیں ہوں
کوئی۔ درہم۔ کوئی۔ آنہ۔ نہیں ہوں
مسلسل شب کی خود سوزی دلا دے
دمِ عجلت کا پروانہ نہیں ہوں
کئی صدیوں کی ہجرت۔ نے بُنا ہے
کوئی ہلکا سا افسانہ نہیں ہوں
نگاہوں میں چھپاتا ہوں سمندر
چھلک جائے کہ پیمانہ نہیں ہوں
بچھڑنا خود سے ایسا بھی کہاں کا
جو دستک دوں کہ بیگانہ نہیں ہوں
پہن لوں سانولی اپنی لکیریں
تمہارا سرخ دستانہ نہیں ہوں
کسی دن ہوش میں آؤں گا سن لو
علی شیدا ہوں دیوانہ نہیں ہوں

0
5