اس شوخ کا جب سے دلِ مضطر پہ کرم ہے
دنیا کی ہر اک شے سببِ رنج و الم ہے
ہر لمحہ گزرتا ہے اسی لیلی کی دھن میں
جتنا بھی میسر ہو وہ دل کہتا ہے کم ہے
واں حسن فروزاں ہے تو یاں عشق ہے سوزاں
کس بات کا پھر اس دلِ بیتاب کو غم ہے
مے خانۂ اغیار میں کیا لذتِ بادہ
پیمانہ و مینا میں بھلے ساغرِ جم ہے
اے بادہ کشِ جامِ تمنا ! تری حسرت
کاکل کی شکن یا لب و رخسار کا خم ہے
اس حسن کی آوارہ مزاجی کے تصدق
اس دل کو ابھی اور ذرا شوقِ ستم ہے

11