کبھی سوچوں میں گُم رہنا، کبھی آنکھوں کو تر رکھنا
کبھی آتش پہ دل رکھنا، کبھی کانٹوں پہ سر رکھنا
تری یادوں میں رو لینا، ترے خوابوں میں جا بسنا
لہو سے نام لکھنا، تیرے چہرے پر نظر رکھنا
تری آنکھوں میں ڈوبے جانا، رعنائی میں کھو رہنا
ترے قدموں میں بیٹھے، زندگی کو پُر خطر رکھنا
کبھی راہوں میں آ ملنا، کبھی مجھ سے بچھڑ جانا
کبھی میرا ذکر کرنا، کبھی میری خبر رکھنا
کبھی مجھ سے خفا ہونا، کبھی مجھ سے لپٹ جانا
مرے نیچے سمندر، آگے اندھیری سحر رکھنا
غریبوں کو کبھی غربت، کبھی رنج و الم دینا
کبھی پانی میں سُکھ رکھنا، کبھی آتش پہ زر رکھنا
کبھی سیلاب سے مارا، کبھی سولی پہ لٹکایا
کبھی گھر کو گِرانا، سر پہ رنجش کا ابر رکھنا
کبھی ادریسؔ مظلوموں پہ بارِ جور و غم رکھنا
کبھی مظلوموں پر جاری ستم شام و سحر رکھنا
محبّت کے فسانے سارے ہی بھُولا دیے ادریس
کہاں تک درد سہنا، دل کو زنج و غم کا گھر رکھنا
بے مقصد کیوں کسی کا دکھ، جفا کا یہ ابر رکھنا

9