جان کو جوکھم میں ڈالے ثانی تدبیریں لاتے ہو
دل تو ہے نادان بہت ہی تم کس کو سمجھاتے ہو
دنیا کے ظالم سے پوچھو ظلم کی اک حد ہوتی ہے
زخمی دل دکھلا نہ سکیں ہم آنکھ ہمیں دکھلاتے ہو
دل کے نہاں خانے میں ترا اک تیر ہے کہ تلوار کوئی
جرمِ نگہ کے بدلے ہمیں تم برسوں کیوں تڑپاتے ہو
سنگار کی خاطر زلفیں تری میں پکڑوں تو چھڑواتے ہو
تم خواب میں بھی آ کر تھکتے ہو کیسی نزاکت ہے جاناں
یہ کیسا نشہ ہے کہ غش کھا کھا کر تم خود ہی گر جاتے ہو
کیا کیا اچھے لوگوں کو کو یوں تم نے بھی گمراہ کیا
تم خود تو بہکتے ہی ہو پیارے ہم کو بھی بہکاتے ہو
بوسہ دیتے ہو تو ہم نے فیس میں یہ دل پیش کیا
یکسر یہ بیمانی ہے کہ جان بھی تم لے جاتے ہو
سورج سے یوں پردہ ہٹا کر رات کو دن کیوں کرتے ہو
زلفِ سیہ بکھرا کے تم کیوں دن کو رات بناتے ہو
تم جو ہمارا دل لے لو تو ہلکا سا بھی اف نہ کریں
اور اگر ہم بوسہ لیں تو زور سے تم چلاتے ہو

0
17