جھاڑیوں کی اوٹ میں پچھلے پہر کا آفتاب
جیسے مفلس کا بڑھاپا جیسے بیوہ کا شباب
دور صحرا میں کسی رہرو کو پانی کی تلاش
رات کی ڈھلتی جوانی بدلیوں میں ماہتاب
تنگدستی کی گھٹن سے زخم خوردہ نازنیں
اور پھر حجرے کے اندر مستیاں کارِ ثواب
جھونپڑی کے سامنے اوباش لڑکوں کا ہجوم
خوبرو الھڑّ دوشیزہ آرزوؤں کا سراب
میکدے میں شیخ صاحب کا بیانِ دلنشیں
اور کونے میں کہیں اک اور بھی عزّت مآب
تخلیہ بہتر ہے یا لالہ رخوں کی محفلیں
عہدِ گم گشتہ کے سپنے جاگتی آنکھوں کے خواب
بیچ ڈالا خرقۂ اسلاف کو بازار میں
اب نہیں ممکن کبھی آئے پرانا انقلاب
نہ کسی آئین کا قانون کا طاری ہو خوف
اپنا ایماں اپنا قرآں اپنا اپنا احتساب
ہر طرف اتنا تفاوت ہے کہ دل ہوتا ہے خوں
کون جانے ختم کب ہوگا طبیعت کا عذاب
اپنی اپنی کوششوں کے سب مکلفّ ہیں امید
وقت بیتا جا رہا ہے آلگا یومِ حساب

0
59