دِل کی دُنیا اُداس ہو گئی ہے
کیا کوئی بات خاص ہو گئی ہے
جانے کِس گُل بدن کی خوشبو ہے
جو ہمارا لباس ہو گئی ہے
کِتنی انمول آنکھ ہے میری
جب سے مردم شناس ہو گئی ہے
اُس کو چّھونے کو دوڑتا ہوں مَیں
آرزو بے لباس ہو گئی ہے۔
ہمسفر جب سے آپ ٹھہرے ہیں
مُجھ کو جینے کی آس ہو گئی ہے
مُجھ سے روٹھے ہیں تُند خُو دریا
جب سے وہ میری پیاس ہو گئی ہے
جب سے باندھا ہے شاعری میں اسے
چار سُو گُل کی باس ہو گئی ہے
مانؔی حیرت زدہ ہوں یہ دُنیا
کس قدر بد حواس ہو گئی ہے

0
64