| یوں خود کو گرفتارِ بلا رکھا ہے |
| گویا کسی مقتل کو سجا رکھا ہے |
| گر بس میں ہو تو آگ لگا دوں دل کو |
| کم بخت نے مدت سے ستا رکھا ہے |
| اور ہم دل والوں کے مقدر میں یہاں |
| شبِ فرقت کے سوا کیا رکھا ہے |
| روزِ محشر یہ جانو گے الفت میں |
| نقصاں کتنا ہم نے اٹھا رکھا ہے |
| ایسے تو دشمن بھی نہ کرتے جیسے |
| تم نے جو ہم پہ یوں ستم ڈھا رکھا ہے |
| ارماں رہا عمر بھر ملن کا لیکن |
| اک فاصلہ تم نے بھی سدا رکھا ہے |
| یہ کیا کم داد ہے کہ ساغر ہم نے |
| قاتل کو ابھی دل میں چھپا رکھا ہے |
معلومات