| یہ پیار بھرے رستے ہموار نہ تھے اتنے |
| ملنے کے ترےہم کو آثار نہ تھے اتنے |
| احساس تجھے ہوتا تو پاس مرے ہوتا |
| ہم تیری محبت سے سرشار نہ تھے اتنے |
| منزل کوئی مل ہی جاتی ساتھ ترا ہوتا |
| جو لوگ ملے ہم کو درکار نہ تھے اتنے |
| اک میری تمناتھی اک تیری انا تھی بس |
| منظور ہمیں سب تھا انکار نہ تھے اتنے |
| اس پیار میں ہم جو قائل جھوٹ کے ہوتے تو |
| ہم جیت ہی لیتے پر فنکار نہ تھے اتنے |
| اب بس ہو گئی شاکر میری غموں سے لڑتے |
| بیزار ہیں جتنے اب بیزار نہ تھے اتنے |
معلومات