| شِکستہ دِل، تہی دامن، بچشمِ تر گیا آخر |
| صنم مِل کر ہمیں پِھر آج تنہا کر گیا آخر |
| غریبِ شہر تھا خاموش رہنے کی سزا پائی |
| وفا کرنے پہ بھی اِلزام اُس کے سر گیا آخر |
| بڑھا کر ہاتھ اُلفت کا سدا کی بے کلی دے دی |
| تُمہاری چاہ کر کے ایک شاعر مر گیا آخر |
| یہ طے تھا ہم انا کے فیصلے سے مُنہ نہ موڑیں گے |
| رہی دستار قائم تن سے لیکن سر گیا آخر |
| فنا کے ہاتھ اپنی زندگی کو چُھو نہ سکتے تھے |
| مگر مالک تِری دُنیا سے یہ دل بھر گیا آخر |
| تھکن سے چُور تھا اُس کا بدن اور آنکھ بوجھل تھی |
| وہ شب بھر گھر سے باہر تھا پلٹ کر گھر گیا آخر |
| وہ جِس کی جُستجو میں ہم نے اپنی زِندگی کھو دی |
| وُہی تو آج حسرتؔ ہم پہ تُہمت دھر گیا آخر |
| رشید حسرتؔ |
معلومات