| ایک سفید پوش کو ایسے نہ بے نقاب کر |
| پہلے ہی خستہ حال ہے حال نہ اور خراب کر |
| ۔ |
| طاعتِ رب کر ایسے تو قرب خدا ملے تجھے |
| نوع بشر ہے تو مگر قدسیوں سے خطاب کر |
| ۔ |
| تم کو ہزار خامیاں غیر میں آتی ہیں نظر |
| اپنی برائیوں کا بھی کوئی مگر حساب کر |
| ۔ |
| میں بھی ترا فریفتہ تجھ پہ رقیب بھی فدا |
| ہے یہ ہر اک کی آرزو میرا ہی انتخاب کر |
| ۔ |
| دل بھی نہیں رہا مرا تو بھی میسر اب نہیں |
| اپنی جناب میں کبھی تو مجھے مستجاب کر |
| ۔ |
| تجھ پہ کریں برا گمان چال چلن پہ ہو سوال |
| ایسی جگہ ایسی بزم سے دم بدم اجتناب کر |
| ۔ |
| ایک ہی مشت خاک ہوں ذرۂ پا ہوں اے شہا |
| مجھ کو زمین سے اٹھا اور مہ و آفتاب کر |
معلومات