| ہم نے جب بھی بات کی تو آدمی کی بات کی |
| موت کو رہنے دیا اور زندگی کی بات کی |
| اپنے مسلک میں جو لکھا ہے وہی ہم نے کیا |
| دشمنوں کی صف میں آکر دوستی کی بات کی |
| حسن والوں تک یہی پیغام پہنچائے کوئی |
| عہدِ پیری میں بھی ہم نے عاشقی کی بات کی |
| اس کا اندازہ غلط نکلا کہ موڑیں گفتگو |
| ہم نے بازی ہار لی پر دل لگی کی بات کی |
| ہم نے ہر محفل میں چھیڑا ذکر اس کے گاؤں کا |
| ہم نے اپنے یار کی مہکی گلی کی بات کی |
| چاند چھونے کا کوئی دعوی نہیں کرتے ہیں ہم |
| خاک زادوں سے لپٹ کر ہمسری کی بات کی |
| کوئی شیدؔا سے تقاضا نثر کا کیوں کر کرے |
| یار موضوعِ غزل ہے شاعری کی بات کی |
معلومات