وہ گل ہاتھ پتھر اٹھائے ہوئے ہیں |
وہ باتوں میں اعدا کی آئے ہوئے ہیں |
۔ |
ہے چہرے پہ غصہ تو آنکھوں میں لالی |
بہت ہی کسی کے تپائے ہوئے ہیں |
۔ |
وہ خنجر مسلسل چلائے ہوئے ہیں |
یہ ہم ہیں کہ پھر بھی نبھائے ہوئے ہیں |
۔ |
ضرورت نہیں پتھروں خنجروں کی |
کہ جاں پہلے ہی ہم لٹائے ہوئے ہیں |
۔ |
نمک ڈال کر میرے زخموں پہ یارو! |
چمک اپنی آنکھوں میں لائے ہوئے ہیں |
۔ |
ادا کیا ہے ! وہ قتل کر کے مرے ہی |
جنازے پہ تشریف لائے ہوئے ہیں |
۔ |
نہیں حسن والوں کو زیبا نہیں وہ |
جو کرنے پہ آج آپ آئے ہوئے ہیں |
۔ |
انھیں حشر کو پو چھیں گے جو سرِ راہ |
تماشا ہمارا بنائے ہوئے ہیں |
معلومات