| عطا رب نے تِرے بازو میں کی ہے قوتِ مرداں |
| لرزتے تھے تِرے ہی نام سے قیصر شہِ ایراں |
| زباں پر نعرۂِ تکبیر دل میں خوف مولیٰ کا |
| قدم جنبش نہیں کھاتے اگر تھے بے سر و ساماں |
| عزائم دیکھ کے افلاک بھی تیرے قدم چومیں |
| تِری ہمت پہ نازاں تھے فرشتے حور اور غلماں |
| سمندر میں بنائے راستے کشتی جلا ڈالی |
| کیا تبدیل تم نے ہے حقیقت میں رخِ طوفاں |
| تمہارا ذکر کرتے ہیں سنو! دست و جبل دریا |
| مگر افسوس کتنے ہوگئے کمزور اور ناداں |
| تمہاری بزدلی اِک دن تمہیں برباد کر دے گی |
| ذرا بیدار ہوجاؤ ! تمہیں ہو غازئِ میداں |
| غلامی کی صعوبت سے کرو آزاد گلشن کو |
| چلو شمشیر زن ! رن میں جلا دو کفر کا زنداں |
| تصدق زیست کا مقصد مکمل آج واضح ہے |
| بچا لو دین کو اپنے دِکھا دو جوہرِ ایماں |
معلومات