شب وصل کو آنے دو اسےاپنے دل کا حال سنانے دو۔
آرام ابھی کر لوں طبیعت سنبھلی ہے من کو بہلانے دو۔
کہ مزاج یہ اپنا نرم رہے گا جہاں میں کچھ بھی ہو جائے۔
مہمانِ محفل کو آنا ہے اب محفل میں جانے دو۔
کچھ خوش ہیں بستی میں کچھ مست ہیں مستی میں سب کا مزاج اپنا۔
کچھ خوش نہیں ہوتے کسی کو اپنا گھر تک جلا آنے دو۔
اب اس سے نہ بجھ سکے گی پھر بڑھکے گی ذرا شب بھر تو جلے۔
سب نرم رویہ ہے اب اس کو پر اپنے جلا جانے دو۔
پھر چند قدم چل کر جائیں گے اپنی کہانی سنائیں گے۔
ہم یار کو بچائیں گے بزم میں سننے ذرا یہ ترانے دو۔
سارے ہمت کر کے پھر چل دیے دیکھو کیا ہوتا ہے اب۔
کہ ستم کچھ اور ہی کر ڈالے گا زمانے بنانے فسانے دو۔
اب پھر سے جہاں تیرے نغمات کی ہی بھر مار ہو گی اتنی۔
جہاں کوچ تو کر جانے دو اب لگنے ہی پھر سے ٹھکانے دو۔

0
16