| سکون دل کو کہیں ایک پل نہیں آیا |
| میں آج گھوم کے ساری تری زمیں آیا |
| وہ حسن تیرے تخیل میں آ نہیں سکتا |
| کہ آج جس کو میں دے کے دل اور دیں آیا |
| جو ایک بار ملا تھا فراق سے پہلے |
| سکون پھر وہ دوبارہ کہیں نہیں آیا |
| دلِ شکستہ کے آنگن میں پھر خوشی آئی |
| میں جان وار دوں گھر میرے ہم قریں آیا |
| فریب یوں کہ فریبی فریب کھا جائے |
| سراب چھوڑ کے میں چشمۂ یقیں آیا |
| دبیر! راہِ طلب کا سفر نہیں آساں |
| کبھی نہ اس میں سکونِ دلِ حزیں آیا |
| (ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات