جہاں بھی جائیں جدھر بھی جائیں، سروں پہ دھوپوں کا سخت پہرا
ہر اک قدم پر نئی مصیبت
ہر اک قدم ہے نیا جھمیلا
برس رہا ہے فلک سے پل پل
تمازتوں کا
سلگتا شعلہ
نہ چین دن کو
نہ شب ہے آساں
تڑپ رہے ہیں
زمیں پہ انساں
ہے پیاس ایسی، کہ کیا بتائیں
سمندروں کو یہ پی چُکے ہیں
مگر ابھی تک ہے پیاس باقی
علاج اس کا فقط یہی ہے
پلا دے ابرِ کرم سے ساقی
پلا دے ابرِ کرم سے ساقی
آفتاب عالم ؔ شاہ نوری

0
2