| جو بھی ہوتا ہے تِرا حال گُزارا کر لے |
| جیسے گزریں یہ مہ و سال گُزارا کر لے |
| کب یہ سوچا تھا بہُو چھوڑ کے جائے گی تُجھے |
| سوچتا کیا ہے مِرے لعل گُزارا کر لے |
| لے کے بیٹھا ہے گِلہ کیا کہ فِلاں نے لوٹا |
| بُھوکے کُتّے ہیں اِنہیں پال گُزارا کر لے |
| شاطری زہن کے لوگوں میں گِھرا بیٹھا ہے |
| تُجھ کو آتی جو نہِیں چال گُزارا کر لے |
| اِس کے سُلجھانے میں تو تُجھ کو جُتا دیکھا ہے |
| اور بڑھ جائے نہ جنجال گُزارا کر لے |
| مُشکلیں پہلے پہل، بار لگا کرتی ہیں |
| خُود کو مُشکل میں نہِیں ڈال گُزارا کر لے |
| نوکری تُجھ کو نہِیں ہے، نہ سہی، مان مِری |
| بکریاں شوق سے تو پال گُزارا کر لے |
| مَیں تُجھے وقت کی رفتار بتانا چاہُوں |
| ماں ہی بن جائے تِری ڈھال گُزارا کر لے |
| مچھلیاں تُجھ کو ہیں مرغُوب تو پِھر ایسا کر |
| ڈال کے بیٹھ ابھی جال گُزارا کر لے |
| سبزیاں جیسی ملیں لا کے دُکاں پر رکھ دے |
| اچھا آتا جو نہِیں مال گُزارا کر لے |
| ماس نوچا ہے یہاں اپنے بیاباں نے رشِیدؔ |
| رہ گئی جِسم پہ جو کھال گُزارا کر لے |
معلومات