| وہ جان بُوجھ کر اگر انجان ہے تو ہے |
| پِھر بھی وہ میرا عِشق ہے پہچان ہے تو ہے |
| تُو اپنی سوچ، مُڑ کے نہِیں دیکھ اِس طرف |
| گھر میرا تیرے بعد جو وِیران ہے تو ہے |
| جب چل پڑے تو راہ کی دُشواریوں کا کیا؟ |
| جنگل ہے بِیچ، راستہ سُنسان ہے تو ہے |
| اہلِ نگر سے واسطہ رکھنے کا فائدہ؟ |
| کُٹیا الگ ہے، شہر یہ گُنجان ہے تو ہے |
| بنتا ہے دِل دُکھانے کا وہ روز و شب سبب |
| کہتا ہے اپنے آپ کو اِنسان ہے، تو ہے |
| سودا برابری کا محبّت میں ہے ندِیم |
| تیرے خیال میں جو یہ احسان ہے تو ہے |
| تو لُوٹ زِندگی کے مزے فِکر میری چھوڑ |
| جِیون تمام ہونے کا اِمکان ہے تو ہے |
| ہر ہر قدم پہ واسطہ گھٹناؤں سے پڑا |
| وہ کہہ رہا ہے زِیست یہ آسان ہے تو ہے |
| حسرتؔ کِسی کی زُلف کے سائے مِلے مُجھے |
| خیرات ہے یہ زِیست، اگر دان ہے تو ہے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات