| شوق کو آر پار ڈالا ہے |
| دل کی سرحد کو مار ڈالا ہے |
| روز اٹھتا دھواں ہے دل سے کیوں |
| کس نے یہ انتشار ڈالا ہے |
| ہجر کا ہائے ناتواں دل پر |
| بوجھ کیوں بار بار ڈالا ہے |
| ہوگیا بے لباس آئینہ |
| کس نے چولا اتار ڈالا ہے |
| خود نشے میں جو آج ساقی ہے |
| پانیوں میں خمار ڈالا ہے |
| ہجر میں اشکبار رنگوں سے |
| عکس تیرا نکھار ڈالا ہے |
| ایک ہی قتل ہم پہ واجب تھا |
| اپنے شیدؔا کو مار ڈالا ہے |
معلومات