دریدہ گریباں سلا ہی نہیں تھا
رفوگر ہمیں یاں ملا ہی نہیں تھا
سناتے کسے ہم فراست کی باتیں
سخن فہم کوئی ملا ہی نہیں تھا
اترتے نہیں خواب آنکھوں میں میری
مرا کوئی ہمدم بنا ہی نہیں تھا
ہے قسمت یہ کیسی غموں میں ہے لپٹی
ملا دیپ جو وہ جلا ہی نہیں تھا
پٹختی رہی سر کو سینہ میں وحشت
کسی نے وہ ماتم سنا ہی نہیں تھا
کٹا سوگواری کے عالم میں جیون
مگر کوئی غم آشنا ہی نہیں تھا
میں تھا میری تنہائی اور تیری یادیں
کسی اور نے مجھ کو چنا ہی نہیں تھا

0
63