| نصیب ہو نہیں پایا جو رنگ میرؔ کا ہے |
| وگرنہ شعر مرا بھی تو زہر تیر کا ہے |
| قفس سے اپنی محبت کے مت نکال اسے |
| رہے گا قید سدا فیصلہ اسیر کا ہے |
| شکست و ریخت سے یہ ہم کنار کر دے گا |
| اٹھا نہ پاؤں گا میں بوجھ وہ ضمیر کا ہے |
| یہ اس کی سیوہ کرے، وہ لہو نچوڑے گا |
| غریبِ شہر سے کیسا سلوک امیر کا ہے |
| نکل کے جانے نہ پاؤں تری اسیری سے |
| سوال رخ کا ترے، زلفِ حلقہ گیر کا ہے |
| چلا تھا پار لگانے کو بیچ میں چھوڑا |
| یہ معجزہ بھی عجب اپنے دستگیر کا ہے |
| ابھی وہ عہدِ جوانی رشِیدؔ خواب ہؤا |
| کہ رنگ پھیکا پڑا وقت کی لکیر کا ہے |
| رشید حسرتؔ |
| ۱۸، اکتوبر ۲۰۲۵ |
معلومات