| ترا ساتھ مل جائے گا آج کل میں |
| یہ اک وہم تھا مٹ گیا کچھ ہی پل میں |
| ۔ |
| دے دو اپنی زلفوں کے آنچل میں دو پل |
| یہ سانسیں مری لے لو گرچہ بدل میں |
| ۔ |
| کہ دنیا میں پہچانتا ہے اسے ہی |
| جسے دل نے دیکھا ہو روزِ ازل میں |
| ۔ |
| غضب سے دیا پھینک دیکھے بنا ہی |
| کہ جو ہم نے بھیجا تھا دل پارسل میں |
| ۔ |
| مدثر دھلے گا نہیں ظلم کا پاپ |
| اگرچہ نہا رات دن گنگا جل میں |
معلومات