ان کی جو سادگی نہیں جاتی
بے خودی میری بھی نہیں جاتی
دار کا مرحلہ ہوا درکار
یوں ہی دیوانگی نہیں جاتی
ہے اضافہ ہی اس کی نخوت میں
اور مری بے بسی نہیں جاتی
آپ کے غم نے کر دیا مجبور
زندگی یوں تو لی نہیں جاتی
کوئی بیٹھا ہے میرے پہلو میں
کاش کہ یہ گھڑی نہیں جاتی
کارفرما کسی کی چال رہی
ورنہ غم سے خوشی نہیں جاتی
جب سے وہ دل میں آ کے بیٹھا ہے
بے کلی ثانی کی نہیں جاتی
مئے غم اب مجھے نہ دے ساقی
اتنی پی لی کہ پی نہیں جاتی
کتنے مظلوم جیل تک پہنچے
آپ کی منصفی نہیں جاتی
دل سمجھتا ہے دل کی باتوں کو
ہر حقیقت کہی نہیں جاتی
ابرِ گیسو و زلفِ کالی گھٹا

0
266