| دھوپ کا راستہ ہے آنکھوں میں |
| ابر کیوں آئنہ ہے آنکھوں میں |
| دشتِ داماں پہ خیمہ زن ہوگا |
| چل پڑا قافلہ ہے آنکھوں میں |
| وہ جو نمکین تھا مزہ نہ رہا |
| اک نیا ذائقہ ہے آنکھوں میں |
| سارے منظر اداس بیٹھے ہیں |
| ہجر کا داخلہ ہے آنکھوں میں |
| راستے رک گئے ہیں پلکوں پر |
| دھند کا شائبہ ہے آنکھوں میں |
| کرچیاں ہیں یہ میرے خوابوں کی |
| یا ترا سلسلہ ہے آنکھوں میں |
| یا وہی بلبلہ ہے یادوں کا |
| یا کوئی آبلہ ہے آنکھوں میں |
| حسن پر آگیا ہے طوفِ نظر |
| رقص پر زمزمہ ہے آنکھوں میں |
| فصلِ باراں سمیٹ لیں شیدؔا |
| ہو رہا مشورہ ہے آنکھوں میں |
معلومات