حال کیا میرا مرے دل کے مکینوں نے کیا
پالتے ہیں ناگ یہ کیا آستینوں نے کیا
ہم سے کچھ بھی ہو نہیں پایا وفا کی راہ میں
کر دیا مجروح کچھ تو مہ جبینوں نے کیا
آ گیا اپنا سفینہ وقت کے گرداب میں
سال نے لوٹا ہمیں بے بس مہینوں نے کیا
رات کالی اور تنہائی میں سناٹوں کا راج
بے قرار اس دل کو از حد مل کے تینوں نے کیا
شعر کی تزئین میں کردار نقّادوں کا ہے
کام کیا اچھا مرے ان نکتہ چینوں نے کیا
آؤ حلقہ عشق کا کرتے ہیں تنگ عشّاق پر
آج اچھا فیصلہ مل کر حسینوں نے کیا
آج تک دیکھا نہ پھر حسرتؔ کبھی تاریخ نے
کربلا میں ایک سجدہ جو جبینوں نے کیا
رشید حسرت، کوئٹہ
٢٩، نومبر ٢٠٢٥
rasheedhasrat199@gmail.com

0
1