| حیوان حیاتی کا عنوان نہیں رکھتے |
| اب جینے کا مقصد کیوں انسان نہیں رکھتے |
| تنقید کے ڈر سے جو منزل سے ہٹ جائیں |
| در اصل وہی بندے اوسان نہیں رکھتے |
| میدان مصیبت میں بڑھتے ہیں وہی آگے |
| تنقید کی جانب جو دیہان نہیں رکھتے |
| طاغوت کے سینوں میں تھا رعب ہمارا بھی |
| اب ان کی مجالس میں ہم جان نہیں رکھتے |
| اس پستی و ذلت کا سبب تو یہی ہےکہ |
| کردار کے دامن میں قرآن نہیں رکھتے |
| توڑ اپنا تکبر تو چھوڑ اپنی مغروری |
| نہیں بہتے وہ دریا جو ڈھلوان نہیں رکھتے |
| نہیں کوئی کمی ہم میں ہتھیار و ہنر سب ہیں |
| نہیں رکھتے عتیق اچھا سلطان نہیں رکھتے |
معلومات