مری بے رخی کا تُو صنم نا ملال کر
ابھی آ مرے دلبر نظر سے وصال کر
گزرتا نہیں دن مکھ ترا دیکھے بن مرا
چھپا کے حسیں چہرہ صنم نا وبال کر
جہاں کے الم سے ہی اگر دل میں آئے غم
طمانچوں سے اے پیارے نہیں چہرہ لال کر
فراق و بے چینی میں بلائے مجھے صنم
چلے جا تو لیکن ہاں غضب کو سنبھال کر
مرے زخم اتنے ہو گئے نا رہا شمار
مرے دل کو دِیکھو آج یارا نکال کر
کروں تم پہ افشا مِیں تمنّا جگر مرے
مرے اس گلستاں میں ظَہُورِ جمال کر
ہواؤں سے ایسا عشق اَچّھا نہیں رضؔی
تری جھونپڑی ہے تنکوں کی تو خیال کر

0
1
50
بہت خوب

0