کھلی کتاب ہوں کوئی سوال تھوڑی ہوں
میں دسترس میں ہوں سب کی محال تھوڑی ہوں
یہ ہاتھ کب سے بڑھایا ہے انتظار میں ہوں
یہ ہاتھ تھام لو دستِ سوال تھوڑی ہوں
وہ آج تک مرے سپنے میں بھی نہیں آیا
غریبِ شہر ہوں میں مالا مال تھوڑی ہوں
چلو سفر پہ مرے ساتھ پھر بچھڑ جانا
گذرتا وقت ہوں میں کوئی جال تھوڑی ہوں
امیرِ شہر کو اک آنکھ بیچ آیا ہوں
مجھے نہ سجدا کرو میں دجال تھوڑی ہوں
میں آج ہوں یہاں شاہدؔ میں کل نہیں ہوں گا
چراغِ سحر ہوں میں لازوال تھوڑی ہوں
ق
میں بھیڑ بکریوں میں بندروں میں اعلیٰ ہوں
خدا نے جس کو بنایا کمال تھوڑی ہوں

0
46