محتاط میں جو یوں اپنوں سے رہا کرتا ہوں
یہ زہر ہے دوستی کا جو پیا کرتا ہوں
کیاخوب جو شام کو پیتا ہوں میں بھی شراب
اور فجر ہوتے ہی توبہ کر لیا کرتا ہوں
اور جتنی پی کر یاں یہ ناداں بہکتا ہے حیف
آبگین میں چھوڑ اتنی میں دیا کرتا ہوں
میرے کھلونوں میں شامل ہے تمہارایہ دل
اوران کھلونوں سے دل کو سمجھایا کرتا ہوں
ہوں آبلہ پا محبت کے سفر میں بے حال
لیکن رہ میں ہوشیاری سے چلا کرتا ہوں
تم نے تو اس بات کا بھی گلہ مجھ سے نہ کیا
یاں میں جو تم سےیہ باتوں کا گلہ کرتا ہوں
وہ بھی یہ دن گھر پہ ہی بتا رہی ہونگی اور
میں بھی یہاں دوستوں سے کم ملا کرتا ہوں
محبوب تیری نئی راہِ وفا اجلی ہو
تاہم میں تجھ سے نہاں تنہا جلا کرتا ہوں

0
65