| کاش ہاتھوں کی جگہ پاؤں اچھالے جاتے |
| پاؤں کٹتے تو مرے پاؤں کے چھالے جاتے |
| جن پہ احسان کیے وہ ہی فریبی نکلے |
| اس سے بہتر تھا یہاں سانپ ہی پالے جاتے |
| اس سے پہلے کہ وہ یہ لفظ چبھوتا دل میں |
| کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے ہی ڈالے جاتے |
| وہ نظر تھی ہی نہیں کس کو دکھاتے جوہر |
| سنگ سمجھے گئے پھر کیسے سنبھالے جاتے |
| وہ تو شیطان کے بہلاوے پہ نکلے شاہدؔ |
| ہم وہاں سخت سوالوں پہ نکالے جاتے |
معلومات