| منہ طمانچوں سے ٹماٹر ہو گیا |
| عشق کے ہاتھوں کچومر ہو گیا |
| عشق میں بیباک تھے پہلے پر اب |
| برہمی کا یار کی ڈر ہو گیا |
| مفلسی کی اک علامت تھی کبھی |
| اب پھٹے کپڑوں کا کلچر ہو گیا |
| شیخ کا چہرہ تھا، بس دو چار بال |
| خیر سے اب دیسی کیکر ہو گیا |
| توبہ توبہ شیخ اور کرتے گناہ |
| ہاں! مگر جو جو میسّر ہو گیا |
| ہم سخنور کے سخنور ہی رہے |
| چھوکرا موچی کا ٹیلر ہو گیا |
| حضرتِ تنہاؔ کا لاشہ کیا اٹھا |
| کوچۂ جاناں معطّر ہو گیا |
معلومات