| کیا بتائیں ہم تمھیں عالم میں کیا زینبؑ کا ہے |
| یہ نبوت یہ امامت یہ خدا زینبؑ کا ہے |
| جس گھڑی پہلے پہل میں خلق کو بھی خلق کیا |
| سر جھکا کے خلق نے کلمہ پڑھا زینبؑ کا ہے |
| کر رہی ہیں آیتیں یوں آبِ کوثر سے وضو |
| نام لکھنا ہے ابھی ان کو ذرا زینب کا ہے |
| بدعتوں کو روند کے اسلام کہتا تھا یہی |
| شاہِ دیں کی محنتوں کو آسرا زینبؑ کا ہے |
| کہہ رہی ہیں فخر سے یہ کہکشائیں دم بدم |
| جز یہ خلقت کا ہماری گردِ پا زینبؑ کا ہے |
| محسنہ دینِ خدا کی اور امامت کی بھی ہیں |
| کیونکہ دونوں پر سدا سایہ رہا زینبؑ کا ہے |
| اس طرح سے روند ڈالا سب یزیدی سوچ کو |
| کہ یزیدی فکر پر اب دبدبہ زینبؑ کا ہے |
| کہہ نہ دے پھر کیوں بھلا صائب یہ سبکے سامنے |
| میں سخن جو پا رہا ہوں سب عطا زینبؑ کا ہے۔ |
معلومات