یہ غم کی جب بھی کبھی کہیں ترجمانی ہوگی
تو سامنے بس ہماری ہی زندگانی ہوگی
تو یعنی سچ مچ مجھے بھلا ہی چکے ہو تم بھی
تو شکریہ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی
مجھے یہاں تو یوں اک ہی دھن ہے سوار وہ یہ
کہ جان چھوٹے گی کب بسر کب جوانی ہوگی
شراب گر چھوڑتا نہیں ہے تو چھوڑو اس کو
وہ جانے اس نے اگر چہ مرنے کی ٹھانی ہوگی
مری تو ہر اک غزل میں تیرا میں نام لے آؤں
مگر کروں کیسے مجھ سے گو سرگرانی ہوگی
مری گو تصویر اس نے رکھی ہو تو کیا پھر
مجھے نہیں ہے خبر وہ بھی گر پرانی ہوگی
خدا نے فنِ سخن دیا ہے عبید ہم کو
کہ کل جو ہونگے نہ ہم ہماری کہانی ہوگی

0
87