| چمکیں رخِ حبیبِ خدا کی جناب میں |
| جرات نہیں ہے اتنی مہ و آفتاب میں |
| ۔ |
| بی آمنہ کے بطن میں جب تک تھا نورِ شہ |
| یزداں نے بھی رکھا انھیں ظلِّ سحاب میں |
| ۔ |
| سارے حسیں بڑے متکبر تھے تب تلک |
| تیرا تھا جب تلک رخِ والا حجاب میں |
| ۔ |
| ہے واہ واہ شان ورٰی الورٰی تری |
| تیرے زمان و رخ کی قسم ہے کتاب میں |
| ۔ |
| دیدارِ چہرۂ شہِ بطحا کی ہے طلب |
| جانے ہے کب سے وہ رخِ والا حجاب میں |
| ۔ |
| جل کر ہوئے ہیں خاک مدثر سبھی عدو |
| ماہِ رسالت آج بھی ہے آب و تاب میں |
معلومات