یہ راہِ عشق ہے اِس میں سراسر خم بھی ہوتے ہیں
کہیں خشکی کہیں سبزہ کہیں رہ نم بھی ہوتے ہیں
سُنا ہے جب وہ تنہا بیٹھتے ہیں اپنی دنیا میں
تو پھر وہ اُنکا چاند اور تیسرے واں ہم بھی ہوتے ہیں
جو سنوری زیست تیرے ہجر میں تو میں نے جانا پھر
کبھی کچھ حادثے دردوں کا یوں مرہم بھی ہوتے ہیں
کہ دھڑکن روک لیتی ہے ، عدم موجودگیِ یار
ضروری تو نہی ہر زندہ جاں میں دم بھی ہوتے ہیں
محبت کی تھی ہم نے استراحت کے لیے لیکن
نہ تھا معلوم اِس میں ہر طرح کے غم بھی ہوتے ہیں

0
2
26
اردو بہتر کیجیئے

یہ راہِ عشق ہے اِس میں سراسر خم بھی ہوتے ہیں
-- بھی ہوتے ہیں کا مطلب ہوتا ہے کہ کچھ اور بھی ہے اور یہ بھی ہے - آپ خود کہہ رہے ہیں سراسر غم
یعنی صرف غم ہوتے ہیں - تو پھر "بھی ہوتے ہیں" تو اسی کی نفی ہوگئی - یہ جملہ غلط ہے -

کہیں خشکی کہیں سبزہ کہیں رہ نم بھی ہوتے ہیں
بھی ہوتے ہیں - جمع کے لیے آپ نے لکھا رہِ نم - ایک راہ - یہ بھئ غلط گرامر ہوئی '

سُنا ہے جب وہ تنہا بیٹھتے ہیں اپنی دنیا میں
تو پھر وہ اُنکا چاند اور تیسرے واں ہم بھی ہوتے ہیں
واں کا یہ مقام نہیں

جو سنوری زیست تیرے ہجر میں تو میں نے جانا پھر
کبھی کچھ حادثے دردوں کا یوں مرہم بھی ہوتے ہیں
-- یوں اضافی ہے

کہ دھڑکن روک لیتی ہے ، عدم موجودگیِ یار
ضروری تو نہی ہر زندہ جاں میں دم بھی ہوتے ہیں
-- غلط گرامر - زندہ جاں واحد - دم بھی ہوتے ہیں جمع

محبت کی تھی ہم نے استراحت کے لیے لیکن
نہ تھا معلوم اِس میں ہر طرح کے غم بھی ہوتے ہیں
- عربی لفط استراحت یہان بے محل ہے - کوئی آرام کرنے یا سونے کے کیئے محبت نہیں کرتا -

0
یہ راہِ عشق ہے ” یہاں سکتہ ہے یعنی عشق کی راہ کی بات ہو رہی ہے اور “اِس میں سراسر خم بھی ہوتے ہیں یہاں خم کا زکر ہے غم کا نہیں آپ نے سمجھا پتا نہیں کیا ہے سر لیکن یہاں لکھا آپ نے غم ہے جو کہ غم نہیں خم ہے اور “ بھی ہوتے ہیں “ بھی کا استعمال ہی اِس لیے ہوا کہ اِس میں شاعر کچھ اور بھی جمع کرنا چاہتا ہے جو کہ دوسرے مصرعے میں ہے کہیں خشکی کہیں سبزہ کہیں رہ نم بھی ہوتے ہیں۔ اور رہ نم ایک رہ نہیں ہے یہاں رہ سے مراد عشق سے بہت سے راستے ہیں صرف ایک راہ نہیں ہے
اور “ تب وہ اُنکا چاند اور تیسرے واں ہم بھی ہوتے ہیں۔ یہاں واں لگانا لازمی ہے کیونکہ پہلے مصرعے میں ذکر ہو رہا کہ اپنی دنیا میں ۔ یہ اُنکی دنیا کا ذکر ہو رہا اِس لیے واں جانا ضروری تھا۔واں وزن کی وجہ سے لکھا جس کا مطلب وہاں ہی ہے
“جو سنوری زیست تیرے ہجر میں ” یہاں سنوری زیست کا ذکر ہے ہو رہا کہ ہجر میں زیست سنوری ہے اور ہجر کو ایک حادثہ کے طور پر لیا گیا ہے اور حادثے سے عموما چوٹیں لگتی ہیں جس کا اعلاج مختلف طرح سے ممکن ہے۔چونکہ شعر میں ہجر کی وجہ سے زیست سنوری ہے اور ہجر کے حادثے کو عاشق کہی طریقوں سے بھلا سکتا ہے اِس لیے یہاں یوں کا استعمال ہوا یعنی تیرا ہجر اِک حادثہ تھا لیکن اصل میں یہ حادثہ ہی میری زیست کو سنوار گیا جو تیرے ساتھ نہیں سنور رہی تھی اور استراحت کا مطلب سکون بھی ہے اورمحبت سکون اور راحت کے لیے ہی کی جاتی محرم سے
باقی یہ کلام اساتذہ سے اصلاح شدہ ہے مزید آپ کا تبصرہ اساتذہ کے سامنے پیش کروں گا اور اُن سے رائے لوں گا
آپ نے میرے کلام میں دلچسبی لی اور اصلاح کی اِس کا میں بے حد مشکور ہوں ۔ خوش و سلامت رہیں آباد رہیں

0