| اِک ادا سے آئے گا، بہلائے گا، لے جائے گا |
| پاؤں میں زنجِیر سی پہنائے گا، لے جائے گا |
| میں نے اُس کے نام کر ڈالی متاعِ زِندگی |
| اب یہاں سے اُٹھ کے وُہ جب جائے گا لے جائے گا |
| کل نئی گاڑی خرِیدی ہے مِرے اِک دوست نے |
| سب سے پہلے تو مُجھے دِکھلائے گا لے جائے گا |
| میں بڑا مُجرم ہُوں مُجھ کو ضابطوں کا ہے خیال |
| ہتھکڑی اِک سنتری پہنائے گا، لے جائے گا |
| میری چِیزوں میں سے اُس کو جو پسند آیا کبھی |
| چِھین لے گا چِیز پِھر مُسکائے گا، لے جائے گا |
| شاعری رکھ دی ہے میں نے کم نظر لوگوں کے بِیچ |
| دوستو وہ مِہرباں بھی آئے گا، لے جائے گا |
| اپنی بِیوی کے بِنا کِس کا گُزارا ہے یہاں |
| دیکھنا، داماد جی پچھتائے گا، لے جائے گا |
| سر میں چاندی تار لے کر ایک لڑکی نے کہا |
| کیا کوئی اب بھی مُجھے اپنائے گا، لے جائے گا؟؟ |
| دیکھنا کُوڑے میں سڑتا باسی کھانا بھی رشِیدؔ |
| ننھا سا مجبُور بچّہ کھائے گا، لے جائے گا |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات