| گردشِ کائنات سے ہم نے اٹھائی رات ہے |
| لوحِ جبینِ خستہ پر کھل کے سجائی رات ہے |
| تیرا خیالِ جاں فزا قوسِ قزح سی اوڑھنی |
| چشمِ گماں پہ دستکیں اٹھ کے بچھائی رات ہے |
| ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر راہ سجھائی چاند کو |
| شہرِ گماں میں اس طرح کس نے گھمائی رات ہے |
| دن کو پرندے سوگئے آکے یہاں منڈیر پر |
| جانے کہاں کے شور میں ان نے بتائی رات ہے |
| خواب سے اٹھ کے آگئے یاد کے جگنو دیکھئے |
| تیری گلی کے آس پاس کس نے بٹھائی رات ہے |
| بکھرے سیاہ بالوں پر سرخ ہے شال اوڑھ لی |
| بات اڑائی جائے گی تم نے چھپائی رات ہے |
| ہم سے گلہ نہیں کریں شؔیدا کہیں اداسیاں |
| ہم نے کمالِ ہجر میں ہنس کے منائی رات ہے |
معلومات