اجنبی شہر میں اب کون ہمیں یاد رکھے
شوقِ نظارۂ گلزار یہاں کچھ بھی نہیں
گرمئ عارضِ گلنار یہاں کچھ بھی نہیں
لطفِ زلف و لب و رخسار یہاں کچھ بھی نہیں
کششِ حسنِ رخِ یار یہاں کچھ بھی نہیں
کچھ نہیں جس سے کہ تسکینِ دل و جان کریں
اپنی آوارہ مزاجی کا ہی سامان کریں
نغمہ و شعر سے پیدا کوئی دیوان کریں
زندگی موجِ حوادث میں بھی آسان کریں
نقش ہے لوحِ جہاں پر جو وہ تحریر ہو تم
کتنی آنکھوں کے حسیں خوابوں کی تعبیر ہو تم
سلسلے شوق کے ، جذبات کی تصویر ہو تم
کسی فن کارِ جہاں زیب کی تعمیر ہو تم
ہم نہیں اہل سیاست جو تمہیں غیر رکھیں
ہم کہ دیوانے ہیں دیوانوں سے کیا بیر رکھیں
ہم کہ پابندِ حرم رسم و رہِ دیر رکھیں
ہم کہ محصورِ ستم سلسلۂ خیر رکھیں
ان سے امیدِ وفا ہو تو بھلا کیوںکر ہو
ان سے انکارِ جفا ہو تو بھلا کیوںکر ہو

3