جو لفظ چھپانے تھے وہ پیغام میں رکھے
الفاظ جو کہنے تھے وہ ابہام میں رکھے
جو پیار میں بولے تھے سبھی اس نے بھلا کر
غصے میں کہے لفظ سب الزام میں رکھے
پھر مجھ کو ستانے میں کسر کوئی نہ چھوڑی
کرچی ہوئے شیشے بھی مرے جام میں رکھے
یاں کاتبِ تقدیر بھی اس سے ہی ملا تھا
جو صبح مجھے چاہیے تھے شام میں رکھے
پھر ایسی بغاوت کی مجھے اس نے سزا دی
دلدوز حوادث میرے انجام میں رکھے

0
29