گناہوں کے سبب عذاب ملتا ہے
بھلائی کا مگر ثواب ملتا ہے
نصیب اوج کا یہ باب ملتا ہے
"صنم کے ملنے سے گلاب ملتا ہے"
حشم خدم، نعم کرم کا ہو بھرم
بشر وہ پھر بہ آب و تاب ملتا ہے
مزاج عالی خود بخود بخیر ہوں
قرین عقل سے جواب ملتا ہے
فریب سے بچیں تلاش آب میں
کہ صحرا میں کبھی سراب ملتا ہے
لگی ہوئی ہو قوم پروری کی دھن
تساہلی سے بس عتاب ملتا ہے
فنا و بقا اسی میں ہوگی ناصؔر اب
مٹیں گے تب تلک یہ خواب ملتا ہے

45