| ہم حالِ دل سنائیں تو کیا تماشا ہو |
| رو رو کے مسکرائیں تو کیا تماشا ہو |
| اوروں پہ ہنسنے والے ! شعلے اگر کبھی |
| تیرا ہی گھر جلائیں تو کیا تماشا ہو |
| دکھ کھول کر جو رکھ دیں ہم سب کے سامنے |
| لاکھوں کو خوں رلائیں تو کیا تماشا ہو |
| شب کے سفر میں تنہا ہم تم کو ایک دن |
| تم سا ہی چھوڑ جائیں تو کیا تماشا ہو |
| بے سود ماضی کے بیتے لمحوں کی تمہیں |
| کچھ تلخیاں ستائیں تو کیا تماشا ہو |
| لے جائیں گر زمیں سے تاروں کی بزم تک |
| نظروں سے پھر گرائیں تو کیا تماشا ہو |
| تم ڈھونڈتے پھرو گے ساغر کو رات دن |
| اور ہم نظر نہ آئیں تو کیا تماشا ہو |
معلومات