بے بس ہو چرخ، آئے بھونچال پھر زمیں کو |
ظاہر کریں کبھی وہ جو حُسنِ آفریں کو |
آنکھیں جُھکی رہیں ساری زندگی حیا سے |
میں دیکھ ہی نہ پایا جی بھر کے مہ جبیں کو |
جس سے یہ کی گئی ہے آرائشِ دو عالم |
خواہش ہے دیکھ لوں میں اُس جلوہ آفریں کو |
رکھتا ہے دل میں جو تیرے بام و در کی چاہت |
لاتا نہیں وہ خاطر میں جنتِ بریں کو |
یا رب شفا دے مجھ بیمارِ فراق کو یوں |
مدفن بنا مِرا شہرِ یار کی زمیں کو |
اپنے سبھی لڑائی جھگڑے ہو جائیں گے ختم |
تم ترک کر دو جو تکرارِ نہیں نہیں کو |
صبحِ نسیم تب جاں کو دیتی ہے طَراوَت |
جب چُھو کے آئے اُن کے گیسوئے عنبریں کو |
بس یہ اثر ترے رُخ سے پردہ ہٹنے کا تھا |
جانا میں نے کہیں تھا اور چل دیا کہیں کو |
کچھ تو کُھلا ہے تیرے شاہؔد پہ رازِ پنہاں |
جو وہ جُھکا رہا ہے پیشِ صنم جبیں کو |
معلومات