| رہے ہیں پیشِ نظر بس خیال کے سکّے |
| اٹھا کے لے گیا کاسہ وہ ڈال کے سکّے |
| وہ زر شناس بظاہر تھا کوئی شہزادہ |
| رکھے ہیں جیب میں واپس، نکال کے سکّے |
| کہ بھیڑ کھال میں اک بھیڑیا ہے پوشیدہ |
| چلیں گے اب نہ مگر اس کی چال کے سکّے |
| کرے نثار جو بچوں کو مال و دولت پر |
| وہ اپنی قبر میں رکھے سنبھال کے سکّے |
| نگر میں ایک مداری عجیب آیا ہے |
| مہک بکھیرے جو پھولوں میں ڈھال کے سکّے |
| بس ان سے کوئی ہمیں انتخاب کرنا تھا |
| چنیں وفائیں اسیروں نے ٹال کے سکّے |
| کہاں کو جائیں ابھی فیصلہ نہ کر پائے |
| کریں گے طے یہ رشیدؔ اب اچھال کے سکّے |
| رشِید حسرتؔ |
| آج مورخہ ۰۹ مئی ۲۰۲۵ کو شام آٹھ بج کر پانچ منٹ پر یہ غزل تکمیل کو پہنچی۔ |
معلومات