عشق کے ذروں کو اپنے اک ستارہ کرگیا
پردہ غفلت کا دلوں سے دور سب کا کرگیا
میں نجومی تھا بہت مشہور اپنے شہر کا
*اک ستارہ مری قسمت میں اندھیرا کر گیا*
اّس کی صحبت میں جو گزرے زندگی کے چند روز
چند روزوں میں ہی میرا پار بیڑا کر گیا
رخ سے پردہ بھی نہ اٹھنے کی کبھی مہلت ہوئی
خود تو چلمن میں رہا ہم کو دیوانہ کر گیا
روبرو ہر دم ہمارے سامنے رہتے ہوۓ
ایک پل میں ہم سبھی سے کیوں کنارہ کرگیا
یاد ہم کو تیرے سارے ذکر ہیں اذکار ہیں
ہر مصیبت سے بچانے کا وظیفہ کرگیا
زندگی تو بس ہماری اک اندھیری رات تھی
تیری چوکھٹ کا تعلق ہی سویرا کر گیا
ہر گھڑی مجھ کو ترا دیدار ہوتا ہی رہے
رات دن میں بس دعا یہ لمحہ لمحہ کر گیا
تو جو روٹھا ہم سے روٹھی دو جہاں کی رونقیں
در ہمارا خالی خالی سونا سونا کر گیا
تیرے چہرے سے جھلکتا مصطفے' کا نور تھا
میرے دل کو دھوکے زم زم سے مدینہ کر گیا
کیا کروں آتا نظر ہے چار سو چہرا ترا
ہر جگہ بس تو ہی تو ہے ، کیا تماشہ کر گیا

0
54